Khamoshi Sy Aziat Tak By Nimra Saher
اسلامُ علیکم
نمرہ سحر کا ناول خاموشی سے اذیت تک رائٹرز کی ریکوسٹ کے بعد ویب سے ہٹا دیا گیا ہے اس ناول کے متبادل یہ افسانہ پبلش کیا گیا ہے
آپ کو تکلیف دینے پر ہم معزرت خواہ ہیں
نمرہ سحر کے مزید ناول پڑھنے کے لیے نیچے لنک پر کلک کریں شکریہ
https://novelhinovel.com/category/nimra-saher/
#افسانہ :#خاموشی_سے_اذیت_تک
#ازقلم_نمرہ__سحر
ماہر نفسیات کہتی ہے کہ اگر کوئی اہمیت دینا چھوڑ دے تو آپ شکایت کرنا چھوڑ دیں اور خاموشی اختیار کر لیں، یاد رہے ہر وقت دستیاب رہنا پیچھے پڑے رہنا ہر وقت کی شکایتیں آپکی اہمیت کو گھٹاتی ہیں اور بھیک میں خیرات ملتی ہے، مقام ،مرتبہ اور عزت نہیں۔
لیکن وہ اس کی محبت میں سب کچھ بھول چکی تھی۔
حتی کہ اپنا آپ بھی۔
عزت،اہمیت ،مقام ،انا،وقار
سب کچھ ہی اس نے کھو دیا تھا۔
وہ اس کے ہجر میں کملی بنی ہوئی تھی ۔
محبت اگر ہو جائے ناں تو انسان کے پاس اپنا کچھ نہیں رہتا۔
وہ بس اپنے محبوب کاہی ہو کر رہ جاتا ہے ۔
اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
وہ اپنا آپ بھول بیٹھی تھی ۔
اور اسی میں اپنی چھوٹی بہن اور بیوہ ماں کو بھی بھول گئی تھی۔
وہ دنیا جہاں سے بے نیاز ہو گئی تھی۔
مگر وہ پہلے ایسے بالکل بھی نہیں تھی۔
وہ ہمیشہ سب کا احساس رکھتی تھی۔
اپنی آنکھیں چار رکھتی تھی۔
گھر میں کونسا سامان ہے کونسا نہیں وہ ہر چیز کا حساب رکھتی تھی۔
وہ لوگ سیالکوٹ کے ایک گاوں میں رہتے تھے۔
وہ دس سال کی تھی کہ باپ اس جہان فانی سے کوچ کر گیا تھا۔
اور بھائی اس کا تھا ہی نہیں ۔
وہ بڑی بہن تھی اور اب باپ کے مرنے کے بعد گھر کا بیٹا بھی۔
اس کی ماں محلے کے کپڑے سلائی کر کے اسے پڑھا رہی تھی۔
اور باقی گھر کے اخراجات بھی اسی سے پورے کرتی تھی ۔
اسماء بس جلدی سے بڑی ہو جانا چاہتی تھی۔
وہ اپنے گھر کے تمام اخراجات اٹھانا چاہتی تھی۔
ابھی وہ دسویں جماعت کے امتحانات دے رہی تھی۔
اس کا ایک پریکٹیکل رہتا تھا۔جو کہ شہر کے کسی کالج میں تھا۔
اس کی چھوٹی بہن طیبہ کی طبیعت بہت خراب تھی۔
جس کی وجہ سے اس کی ماں طیبہ کو ہسپتال لے کر گئی تھی اور اسماء کے ساتھ جانے والا کوئی بھی نہیں تھا۔
اس کی ماں نے اسے اس کی بچپن کی دوست ثنا کے ساتھ جانے کا کہا۔
وہ خاموشی سے اس ساتھ چلی گئی۔
وہ لوگ پریکٹیکل دینے کے بعد کلاس سے باہر نکلیں۔
ثنا نے اسے کہا کہ وہ وہیں رکے میں کھانے کے لیے کچھ لے کر آتی ہوں۔
اسماء جا کر ایک بینچ پہ بیٹھ گئی۔
ابھی وہ وہاں جا کر بیٹھی ہی تھی کہ اس کے پاس ایک لڑکا بیٹھ گیا۔
اسماء وہاں سے اٹھ کر جانے لگی تو اس لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
اسماء نے پلٹ کر ایک تھپڑ اسے مارا اور وہاں سے چلی آئی۔
کچھ ہی دنوں بعد وہ بلکل ہی بھول چکی تھی کہ اس نے کسی کو تھپڑ بھی مارا تھا۔
اس کی ماں نے اسے سلائی سیکھنے کو کہا تھا، کیونکہ وہ دو سے چار ماہ کے لیے فری تھی ابھی رزلٹ آنے میں دیر تھی اور اس کی ماں چاہتی تھی کہ وہ کچھ سیکھ لے۔
اس نے ماں سے کہا کہ وہ کمپیوٹر کورس کرنا چاہتی ہے تا کہ آگے کچھ بن سکے سافی زندگی ماں کی طرح لوگوں کے کپڑے سلائی نہیں کر سکتی۔
لیکن اس کی ماں نہیں مان رہی تھی ۔
کچھ دن کی ضد کرنے کے بعد اس کی ماں مان گئی۔
وہ ثنا کے ساتھ کمپیوٹر کورس کرنے روز جانے لگی۔
ایک دن چھٹی کے بعد وہ وہاں سے نکل رہی تھی، اس دن ثنا نے چھٹی کی تھی۔
وہ ابھی سڑک کے کنارے آ کر بس کا انتظار کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہی تھی۔
کہ اس کے پاس ایک بڑی سے گاڑی آ کر کھڑی ہوئی اور اس میں سے وہی لڑکا لڑکا نمودار ہوا جس کو اسماء نے تھپڑ مارا تھا۔
اسماء اسے دیکھتے ہی سڑک کے کنارے بنے فٹ پاتھ پہ تیز تیز چلنے لگی۔
وہ لڑکا بھاگتے ہوئے اس کی جانب آیا اور اس کے چہرے پہ فورا سے ایک رومال ڈالا جس سے وہ چند لمحوں میں دنیا جہاں سے بےخبر ہو کر اس کی بانہوں میں جھول گئی۔
اس کی جب آنکھ کھلی تو وہ ایک بہت بڑے محل نما کمرے میں موجود تھی ۔
اس نے اپنے چاروں اطراف میں نظریں دوڑائیں۔
گھڑی پہ نظر اس کی منجمند ہو کر رہ گئی۔
گھڑی رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔
اسے اپنا آپ بہت بے بس محسوس ہوا ۔
اس کی ماں کی کیا حالت ہو رہی ہو گئی۔
یہی سوچ کر اسے اپنی جان اپنے وجود سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
کچھ ہی دیر بعد وہاں وہ لڑکا آیا ۔
اس کے ساتھ چار آدمی تھے۔
اور ایک مولوی بھی۔
اسماء نے بہت انکار کیا، چینخی چلائی مگر بے سود ۔
اس کا نکاح اس لڑکے شہباز خان سے پڑھوا دیا گیا۔
وہ ساری رات بیٹھی اپنی قسمت کو روتی رہی۔
صبح کے وقت اس کی آنکھ لگ گئی۔
واپس اس کی آنکھ دن کے دس بجے کھلی۔
اس نے اٹھ کر کمرے سے باہر جانے کی کوشش کی مگر دروازہ باہر سے بند تھا۔
وہ بے بس ہو کر واپس رونے بیٹھ گئی۔
روتے روتے وہ نڈھال ہو کر وہیں بے ہوش ہو گئی۔
شام کو ملازم اسے کھانا دینے آیا تو آگے اسے بےہوش پایا۔
اس نے فورا سے شہباز خان کو بتایا۔
اس نے ڈاکٹر کو بلایا۔ڈاکٹر نے دوا دی اسے اور چلا گیا۔
دوا کے زیر اثر وہ اگلے دن صبح تک سوتی رہی۔
وہ صبح اٹھی تو شہباز خان اسی کے پاس بیٹھا ہوا۔
اسماء نے اس سے التجا کی کہ ایک بار بس میری ماں سے مجھے ملنے دو۔
“تمھاری ماں مر گئی ہے”
یہ الفاظ سنتے ہی وہ ساکت ہو گئی۔
کچھ دیر وہ سکتے کے عالم میں شہباز کو دیکھتی رہی۔
اور پھر اٹھی اور اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔
صرف تمھاری وجہ سے۔
وہ ہذیانی انداز میں چلانے لگی۔
شہباز نے بہت معافی مانگی کہ وہ ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا، وہ بس اس سے تھپڑ کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔
اسماء اس کی کوئی بھی بات نہیں سننا چاہتی تھی۔
وہ اپنی ماں کا ماتم گھٹنوں میں سر دئیے رو کر کرنے لگی۔
پھر اسے اپنی بہن طیبہ کی یاد آئی۔
وہ اٹھی اور اس کمرے سے جانے لگی۔
شہباز نے اس کی کلائی پکڑی اور اسے باہر جانے سے روکنے لگا۔
“میری بہن۔۔۔۔میری بہن اکیلی ہے مجھے جانے دو”
وہ التجائی انداز میں اس سے دونوں ہاتھ جوڑ کر جانے کی اجازت مانگنےلگی۔
وہ بھی آج صبح مر گئئ ہے۔
اسماء کو لگا ساتوں آسمان اس پہ آ گرے ہیں۔
تم مجھے اب بتا رہے ہو۔
اتنی بڑی سزا ایک تھپڑ کی ۔۔
تم انسان نہیں ہو سکتے۔
تم جلاد ہو۔
جانوروں سے بھی بدتر ہو۔
وہ پاگلوں کی طرح چلانے لگی۔
شہباز اسے اس کے حال پہ چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
کچھ ہی دیر بعد اس کمرے میں ایک لڑکی داخل ہوئی۔
میں تمھیں ایک بات بتاوں۔
وہ لڑکی اسماء کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی۔
اسماء نے خالی خالی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
وہ لڑکی پھر سے بولی۔
میں شہباز کی بہن ہوں اور تم لوگوں کی محبت کو اپنا غم مت بناؤ
پس لوگوں کے دل تو الٹتے پلٹتے رهتے ہیں ۔
لوگ کبھی بھی وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں.ہر انسان کے اندر اور بہت سے انسان بسے ہوتے ہیں ۔ جو موقع کی تلاش میں رهتے ہیں ۔اور موقع ملتے ہی باہر نکل آتے ہیں ۔
کوئی سفاک
کوئی مہربان
کوئی ملنسار
کوئی دھوکے باز
کوئی دوغلا
کوئی ہنس مکھ
تو کوئی تلخی سے بھرا ہوا ۔
ایک لمحہ آپ کے ساتھ تو دوسرے ہی لمحے آپ کے خلاف آپ کو پتا بھی نہیں چلتا ۔ کون کہاں بدل جائے ۔ برسوں کے تعلقات منٹوں میں ختم ہو جاتے ہیں ۔آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں آپ لوگوں کو نہیں جان سکتے ۔ آپ کسی کو جاننے کا دعوا بھی نہیں کر سکتے ۔ آپ یہ کبھی نہیں جان سکتے کہ بند دروازوں کے پیچھے کوئی کس حال سے گزر رہا ہے ۔
ہو سکتا ہے کوئی کتنا خوش نظر آئے، کسی کی ہنسی کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ، وہ کسی ایسے غم اور تکلیف کا سامنا کر رہا ہو جو نا قابل بیان ہو
آپ لوگوں سے نرمی برتیں ۔ خواہ آپ کو جواب میں تلخی ہی کیوں نا ملے ۔ درگزر کرنا سیکھیں ۔اور اپنی امیدوں کو صرف اور صرف اللّٰہ پاک سے وابستہ کر لیں.
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء اس کی بات سن کر بلند آواز میں ہنسنے لگی۔
یہ سب تم مجھے سکھا رہی ہو مجھے۔۔۔؟
اس نے اپنے سیدھے ہاتھ کی دو انگلیاں اٹھا کر اپنے آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں تمھیں بتاتی ہوں۔
مجھے تمھارے بھائی سے محبت ہو گی تھی۔
جس دن میں نے اسے تھپڑ مارا تھا اسی دن۔
لیکن اس کا میرا ہاتھ پکڑنا مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ اس بات کا بدلہ میں نے اسے تھپڑ مار کر لے لیا تھا۔
اس کی وجہ سے ہی میں نے کمپیوٹر کورس کرنا شروع کیا تھا
تا کہ روز میں اسے دیکھ سکوں۔
میں تو سب کچھ اس کی محبت میں بھول گئی تھی۔
اور دیکھا تم نے کیا صلہ دیا مجھے تمھارے بھائی نے۔
میں بتاتی ہوں۔
مجھے یہ صلہ دیا کہ اس کی وجہ سے میری ماں بدنامی کے ڈر سے چل بسی۔
اور اس کے مرنے کے اگلے دن صبح ہی میری بہن بھی مر گئی۔
اور سونے پہ سہاگہ میں بتاوں کیا ہوا ،کیا کیا تمھارے بھائی نے، اس نے مجھے ملنے نہیں دیا آخری بار ، مجھے اپنی ماں اور بہن کا آخری بار دیدار بھی نہیں کرنے دیا۔
یہ مجھے میری محبت کا صلہ ملا ہے۔
یہ ہوا ہے میرے ساتھ۔
تم مجھے اپنے بھائی کا بتا رہی ہو ڈھکے چھپے افسانوی الفاظوں میں کہ وہ ایسا نہیں ہے۔
تو میں بھی ایسی نہیں ہوں۔
بہتر ہو گا تم اپنے بھائی کی گھٹیا وکالت لے کر یہاں سے چلی جاو۔
شہباز خان کی بہن آنکھوں میں آنسو لیے کمرے سے باہر نکل گئی۔
دو ماہ گزر چکے تھے۔
شہباز خان نے ایک دن بھی واپس اس کے کمرے میں قدم نہیں رکھا تھا۔
وہ سارا دن اور ساری رات فرصت سے اپنے نصیب پہ روتی رہتی اور زیادہ تر سجدے میں رہتی۔
ایک دن اس سے ثنا ملنے آئی تو اسے پتہ لگا کہ جس نے اسے شہباز خان لے کر اپنے گھر آیا تھا۔اس دن اسماء کے گھر نکلنے کے ساتھ ہی اس کی ماں کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ اس کی وجہ سے اسی وقت مر گئئ تھی۔
سارا دن اسماء کے گھر واپس آنے کا محلے والے انتظار کرتے رہے لیکن وہ واپس نہ آئی تو اس کی ماں کو دفنا دیا گیا ۔
اور طیبہ کو ثنا اور اس کی ماں اپنے گھر لے گئئ تھی۔
بہت زیادہ رونے کی وجہ سے وہ نڈھال ہو گئی تھی۔اسے پہلے ہی سانس کی بیماری تھی اور پھر بہت زیادہ رونے کی وجہ سے اس کا سانس بند ہونا شروع ہو گیا۔
اور صبح کے وقت اس نے جان دے دی۔
اور شہباز جب تمھاری ماں اور بہن کولینے کے لیے تمھارے گھر گیا تا کہ ان دونوں کو بھی تمھارے ساتھ یہاں پہ رہنے کے لیے کہے تو تب اسے پتہ لگا کہ یہ سب ہو گیا ہے۔
مطلب کہ اس میں شہباز کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اسماء نے خالی خالی نظروں سے سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے استفسار کیا ۔
ہاں بھائی کا کوئی قصور نہیں ہے اس میں۔
ثنا نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
دھول چھٹ چکی تھی۔
اور اب اس گھر کے سوا اس کے پاس کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔
سو اس نے ملازم کے تحت شہباز کو بلوایا اور تھپڑ مارنے کی معافی مانگی۔
اس نے بھی اسماء سے معافی مانگی کہیں نہ کہیں اس کی بھی غلطی تھی۔
اسماء اس کے گلے لگ کر رونے لگی۔
سب ٹھیک ہو چکا تھا ۔۔۔
محبت کے قیمتی لمحات اگر جھوٹی اناؤں کی نظر ہو جائیں تو پھر
ہاتھ میں صرف گھڑی رہ جاتی ہے
اور وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔
اس نے بھی انا کو محبت پہ وار پھینکا۔
اور خوشی خوشی اس کے ساتھ رہنے لگی۔
ختم شد